Ruling on offering prayers in the power of a non-qualified hadeeth imam
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍ تحریر : مسزانصاری
یہ سوالات ہر شخص کو پریشان کرتے ہیں بلکہ مشقت میں ڈال دیتے ہیں خصوصًا ایسے شخص کو اپنی نماز کی صحت پر وسوسے آنے لگتے ہیں جس کے گھر کے گرد و پیش یا دور دور تک صحیح مسلک کی مسجد نہ ہو کہ :
✿ کیا تقلید کی بندشوں میں جکڑے ہوئی امام کی اقتداء میں نماز جائز ہے �
✿ کیا اہل قبور کو مشکل کشا جان کر مرادیں مانگنے والے امام کی اقتداء میں نماز جائز ہے �
✿ کیا اہل تشیع کی اقتداء میں نماز جائز ہے �
✿ کیا غیر مسلک کے امام کی اقتداء میں نماز جائز ہے �
✿ میری پہنچ میں کسی صحیح المسلک کی مسجد نہیں کیا میں گھر میں نماز پڑھ لوں یا نہیں �
✿ محلے کا امام ارکانِ نماز کی ادائیگی میں عجلت برتتا ہے کیا گھر میں نماز پڑھے یانہیں�
✿ میرے محلے میں حنفی ، دیوبندی ، بریلوی یا اہل حدیث کی مسجد ہے کیا انکی اقتدا میں نماز پڑھوں یا نہیں ؟؟ یا گھر میں نماز پڑھ لوں �
ان تمام سوالوں کے جواب سے پہلے امامت کا ایک اصول یاد رکھیے کہ امامت فرقوں کے خود ساختہ عقائد پر نہیں کی جاتی بلکہ امامت کے اس اصول کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے جو شریعتِ محمدیہﷺ نے ہمیں حکم کیا اور جس پر خود نبی کریمﷺ نے عمل کیا ۔ نیز یہ واضح رہے کہ بریلوی اور دیوبندی جیسی نسبتیں دیوبند اور بریلی کے مدارس کی وجہ سے ہیں امامت کا تعلق عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ سے ہے ۔ لہٰذا مقدم حکمِ شریعت یہ ہے کہ جماعت میں جو سب سے زیادہ نیک اور عالم ہے وہی شخص امامت کا حقدار ہو سکتا ہے ۔
اس بارے میں جو احادیث مروی ہیں ان میں سب سے پہلے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام ہمیشہ وہی شخص مقرر کیا جائے جو سب جماعت میں نیک اور عالم ہو۔ مثلاً مسند مستدرک حاکم میں مرثد غنوی سے یہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ان سرکم ان تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فانھم وفد کم فیما بینکم وبین ربکم»
’’مسلمانو! تم اگر چاہتے ہو کہ تمہاری نمازیںقبول ہوں تو تم سے بہتر لوگ تمہاری امامت کریں اس لیے کہ امام تمہارے اور تمہارے رب (عزوجل) کے درمیان ایلچی ہیں۔‘‘
نیز یہ حکم صحیحین کی روایت سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«یؤم القوم اقرؤھم لکتاب اللّٰہ فان کانوا فی القراءة سواء ناعلمھم بالسنة فان کانوا فی السنة سواء فاقد مھم ھجرة فان کانوا فی الھجرة سواء فاقدمھم سنا»
’’جو شخص تمام قوم میں سے زیادہ قرآن مجید کا عالم ہو وہی امامت کرائے۔ اگر قرآن کریم کے علم میں سب برابر ہیں تو پھر جو اُن میں سے حدیث زیادہ جانتا ہو۔ اگر حدیث کے علم میں سب برابر ہوں تو پھر جس نے سب سے پہلے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہے۔ اور اگر ہجرت میں سب برابر ہیں تو پھر عمر میں جو سب سے بڑا ہے۔‘‘
الغرض کہ وہ شخص جو علم و عمل میں دینی خصائص کا حامل ، عمل میں نیک اور علم میں بڑا ہو امامت کا حق رکھتا ہے ۔
ما حاصل کہ ہر امام کے ذاتی عقائد جس پر اس کا عمل ہے دیکھ کر یہ اسکی اقتداء اختیار کی جاتی ہے یا رد کی جاتی ہے چاہے وہ اہل حدیث ہو ، بریلوی ہو ، دیوبندی ہو یا حنفی ہو ۔ اگر ایک اہل حدیث بھی نمازِ نبوی سے ہٹا ہوا پایا جائے گا اور اس کا جھکاو ان شروط کی طرف پایا جائے گا جہاں کفر کی حد تک بدعت پہنچ جائے یا شرکِ اکبر کا مرتکب ہو تو ایسی امامت کی اقتداء جائز نہیں ہے ۔
اہل السنةوالجماعت ایسے امام کی اقتداء کو ناجائز قرار دیتے ہیں جسکی بدعت غیر مکفرہ ہو ، تاہم ایسا امام جس کی بدعت مکفرہ ہو اہل السنةوالجماعت کے نزدیک امامت کے لائق نہیں ، نیز اسکی اقتداء میں نماز نہ پڑھی جائے ۔
غیر اہل حدیث کی امامت کے بارے میں فتوی کمیٹی کا فتوی ہے کہ :
" بات دیوبندی یا اہل حدیث کی نہیں ہے ،بلکہ ہر شخص کے اپنے ذاتی عقائد کو دیکھ کر حکم لگایا جاتا ہے، چنانچہ کافر یا مشرک امام کی اقتداء میں نماز درست نہیں ہے ،خواہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث ہی کیوں نہ کہلاتا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَبَاطِلٌ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’جو وہ عمل کرتے ہیں وہ باطل ہیں‘‘اسی طرح ہر وہ شخص جو بدعت مکفرہ کا مرتکب ہو اس کے پیچھے بھی نماز نہیں ہوتی۔لیکن بدعت غیر مکفرہ کے مرتکب اور فاسق و فاجر امام کے پیچھے راجح موقف کے مطابق نماز ہو جاتی ہے۔ "
نیز فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ کی جلد1میں صفجہ نمبر 437 پر ملاحظہ فرمائیے :
غیر اللہ کو حاجت روا مشکل کشا سمجھنے والے مشر ک بر یلو ی امام کی اقتدا ء میں نماز پڑھنا ناجائز ہے قرآن میں ہے ۔
﴿إِنَّمَا المُشرِكونَ نَجَسٌ...﴾...
﴿سورة التوبة / ٢٨﴾
مشرک نجس پلید ہیں
دیو بندی غیر متعصب امام کے پیچھے بوقت ضرورت نماز پڑھی جا سکتی ہے تاہم مستقلاً اپنا علیحدہ بندو بست کرنا چا ہیے کسی بھی مخصوص مقام کو مسجد قرار دیا جا سکتا ہے حدیث میں ہے
’’ جعلت لي الارض مسجدا وطهورا ’’
صحيح البخاري كتاب التيمم رقم الباب (١) (ح:٣٣٥٩ والصلاة(٤٣٨) صحيح مسلم كتاب وباب المساجد ومواضع الصلاة (١١٦٧)
پوری روئے زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا
الشیخ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ تعالیٰ فتاوی اصحاب الحدیث کی جلد نمبر ٢ میں صفحہ نمبر ١۵۵ میں رقمطراز ہیں :
ہمارے نزدیک جو انسان تقلید شخصی کو شرعی حکم خیال کرتا ہے اورا پنے امام کی بات کو حرف آخر تسلیم کرتا ہے ،اولیائے اللہ کو حاجت روا اور مشکل کشاسمجھتا ہے ،اہل قبور سے استمداد کا قائل اور فاعل ہے ،نیز رسول اللہﷺ کو عالم الغیب اور حاضرو ناظر جانتا ہے ،ایسے شخص کو مستقل طورپر اپنا امام نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی ایسے شخص کے پیچھے مستقل طورپر اختیاری حالات میں نماز ادا کرنا چاہیے،البتہ کبھی کبھار کسی مصلحت و ضرورت کے پیش نظر ایسے امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا پڑے تو نماز ادا ہوجائے گی۔ جیسا کہ اہل بدعت کےمتعلق امام حسن بصریؒ کا قول ہے ۔(جب ان سے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کےمتعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا)‘‘اس کی اقتدا میں نماز پڑھ لے اور بدعت کا وبال بدعتی پر ہوگا۔’’(صحیح بخاری،کتاب الاذان ،باب امامۃ المفتون والمبتدع)
لیکن جس امام میں ایسی فکری اور نظریاتی خرابیاں ہوں جو اسے دین اسلام سے خارج کردیتی ہوں تو ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
✍ لہٰذا سائل بھائی !! اگر آپ کسی امام کی بدعت مکفرہ کو سمجھتے ہیں اور بخوبی جان لیتے ہیں کہ یہ امام بدعت مکفرہ کا حامل ہے تو اسکے پیچھی نماز پڑھنے سے پرہیز کیجیے ، کیونکہ جس کی اپنی نماز باطل ہے اسکی امامت بھی باطل ہے ۔ بصورتِ دیگر کسی امام سے آپ نے بدعت مکفرہ ہوتے نہیں دیکھی تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں ۔
آپکے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا بحالتِ مجبوری کیجیے ۔ بہتر یہی ہے کہ ایسے امام کی اقتدا میں نماز پڑھیے جو صحیح العقیدہ سلفی امام ہو ، جیسا کہ علماء کے کلام سے واضحہے ۔ اور اگر آپ کو صحیح العقیدہ امام میسر نہیں ، اور جس امام کی اقتدا میں آپ کو نماز ادا کرنی پڑتی ہے وہ بدعتِ مکفرہ کا حامل ہے اور غلط العقیدہ شخص ہے تو آپ کچھ ہم مسلک کے ساتھ جماعت کا اہتمام کر سکتے ہیں ، مسجد میں آپکی علیحدہ نماز اگر فتنے کا باعث بن رہی ہو تو گھر میں یا کسی مصلے کا اہتمام کرکے جماعت بناکر نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ سے آپکی نیت کے موافق قبول فرمائے ۔ آمین
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙاعِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment